Showing posts with label Islamic Articles. Show all posts
Showing posts with label Islamic Articles. Show all posts

حديث''وسنتي'' کي دوسري سند


''و عترتي اہل بيتي '' صحيح ہے يا ''و سنتي''؟
حاکم نيشاپوري نے اس حديث کو ابو ہريرہ سے مرفوع طريقہ سے ايک ايسي سند کے ساتھ جسے ہم بعد ميں پيش کريں گے يوں نقل کيا ہے:
اِن قد ترکت فيکم شيئين لن تضلوا بعدھما : کتاب اللّہ و سنت و لن يفترقا حتي يردا علَّالحوض.
اس متن کوحاکم نيشاپوري نے درج ذيل سلسلہ سند کے ساتھ نقل کيا ہے:
''الضب'' عن ''صالح بن موسيٰ الطلح'' عن ''عبدالعزيز بن رفيع'' عن ''اءب صالح'' عن ''اءب ہريرہ''
يہ حديث بھي پہلي حديث کي طرح جعلي ہے . اس حديث کے سلسلہ سند ميں صالح بن موسي الطلحي نامي شخص ہے جس کے بارے ميں ہم علم رجال کے بزرگ علماء کے
نظريات کو يہاں بيان کرتے ہيں:

غير خدا كي قسم كھانا


 ابن تيميہ كا كہنا يہ ھے كہ اس بات پر علماء كا اتفاق ھے كہ باعظمت مخلوق جيسے عرش وكرسي، كعبہ يا ملائكہ كي قسم كھانا جائز نھيں ھے، تمام علماء مثلاً امام مالك، ابوحنيفہ اور احمد ابن حنبل (اپنے دوقولوں ميں سے ايك قول ميں) اس بات پر اعتقاد ركھتے ھيں كہ پيغمبر اكرم صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم كي قسم كھانا بھي جائز نھيں ھے اور مخلوقات ميں سے كسي كي قسم كھانا چاھے وہ پيغمبر كي هو يا كسي دوسرے كي جائز نھيں ھے اور منعقد بھي نھيں هوگي، (يعني وہ قسم شرعي نھيں ھے اور اس كي مخالفت پر كفارہ بھي واجب نھيں ھے) كيونكہ صحيح روايات سے يہ بات ثابت هوتي ھے كہ پيغمبراكرم صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم نے فرمايا:
خدا كے علاوہ كسي دوسرے كي قسم نہ كھاۆ، ايك دوسري روايت كے مطابق اگر كسي كو قسم كھانا ھے تو اس كو چاہئے كہ يا تو وہ خدا كي قسم كھائے يا پھر خاموش رھے يعني كسي غير كي قسم نہ كھائے، اور ايك روايت كے مطابق خدا كي جھوٹي قسم، غير خدا كي سچي قسم سے بھتر ھے، چنانچہ ابن تيميہ كھتا ھے كہ غير خدا كي قسم كھانا شرك ھے-
البتہ بعض علماء نے پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم كي قسم كو استثناء كيا ھے اور آپ كي قسم كو جائز جانا ھے، احمد ابن حنبل كے

Adal e Elahi عدل الہٰي کے دلائل


1-حسن وقبح عقلي
پہلے يہ جاننا ضروري ہے کہ ہماري عقل اشياء کي ”‌خوبي“اور ”‌بدي“ کو قابل توجہ حد تک درک کرتي ہے -(يہ وہي چيز ہے،جس کا نام علماء نے ”‌حسن قبح عقلي“رکھا ہے)
مثلا ہم جانتے ہيںکہ عدالت واحسان اچھي چيز ہے اور ظلم وبخل بري چيز ہے-يہاں تک کہ ا ن کے بارے ميں دين و مذہب کي طرف سے کچھ کہنے سے پہلے بھي ہمارے لئے يہ چيز واضح تھي،اگر چہ دوسرے ايسے مسائل موجود ہيں جن کے بارے ميں ہمارا علم کافي نہيں ہے اور ہميں رہبران الہٰي و انبياء کي رہبري سے استفادہ کر نا چاہئے-
اس لئے اگر”‌اشاعرہ“ کے نام سے مسلمانوں کے ايک گروہ نے ”‌حسن قبح عقلي“ سے انکار کر کے اچھائي اور برائي کو پہچاننے کا راستہ -حتي عدالت وظلم وغيرہ کے سلسلہ ميں-صرف شرع ومذہب کو کافي جانا ہے ،تو يہ ايک بہت بڑا مغالطہ ہے-
کيونکہ اگر ہماري عقل نيک وبد کو درک کر نے کي قدرت وصلاحيت نہ رکھتي ہوتو ہميں کہاں سے معلوم ہو گا کہ خداوند متعال معجزہ کو ايک جھوٹے انسان کے اختيار ميں نہيں ديتا ہے؟ليکن جب ہم کہتے ہيں کہ جھوٹ بولنا بُرا اور قبيح ہے اور خدا سے يہ کام انجام پا نا محال ہے،تو ہم جانتے ہيں کہ خدا کے وعدے سب حق ہيں اور اس کے بيانات سب سچے ہيں -وہ کبھي جھوٹے کي تقويت نہيں کرتا ہے اور معجزہ کو ہر گز جھوٹے کے اختيار ميں نہيں سونپتا ہے-
اسي وجہ سے شرع ومذہب ميں جو کچھ بيان ہوا ہے اس پر اعتماد کيا جاسکتا ہے-
اس لئے ہم نتيجہ حاصل کرتے ہيں کہ حسن وقبح عقلي پر اعتقاددين و مذہب کي بنياد ہے-(توجہ کيجئے!)
اب ہم عدل الہٰي کے دلائل کي بحث شروع کرتے ہيں اور اس حقيقت کو سمجھنے کے لئے ہميں جاننا چاہئے:
2-ظلم کا سر چشمہ کيا ہے؟
”‌ظلم“کا سر چشمہ مندرجہ ذيل امور ميں سے ايک ہے:

جنات سيدہ نے اپنے شوہر سے اونچي زبان ميں بات کي ہو

ازدواجي زندگي کے آغاز سے لے کر آخر قيامت تک تاريخ اسلام ميں کوئي واقعہ نظر نہيں آتا جس سے يہ ظاہر ہوا کہ جنات سيدہ نے اپنے شوہر حضرت علي (ع) سے اونچي زبان ميں بات کي ہو يا کسي طرح کا گلہ شکوہ کيا ہو- وہ ہميشہ فرمان بردار رفيق حيات کي طرح علي (ع) کي مدد کرتيں اور ان کا حوصلہ بڑھانے کي ہر ممکن کوشش کرتي تھيں- انہوں نے اپنے شوہر سے کبھي بے جا فرمائش نہيں کي- حضرت فاطمہ (س) گھر کا سارا کام خود کرتي تھيں- خود چکي چلاتي تھيں- کھانا خود تيار کرتي تھيں- شوہر اور بجوں کے کپڑے خود دھوتي تھيں- برتن اور گھر خود صاف کرتي تھيں- اس کے علاوہ عبادت ميں بھي اس منزل پر تھيں کہ انہيں اسلام کي خاتون اول کا درجہ ديا جاتا ہے- روايت سے پتہ چلتا ہے کہ رسول خدا (ص) ہر سفر کے موقع پر جس شخصيت سے سب سے آخر ميں ملتے اور سفر سے واپسي پر سب سے پہلے ملتے وہ حضرت فاطمہ (س) ہي تھيں-
فاطمہ ظہرا (س) کا ہي فرمانا ہے کہ " عورت کے لئے سب سے بہترين شے يہ ہے کہ وہ کبھي کسي نامحرم پر نظر نہ ڈالے نہ خود کو اس کي نظروں کے سامنے ظاہر ہونے دے-"

حضرت فاطمہ (س) کے نام کي وجہ تسميہ

پيغمبر اسلام (ص) سے منقول ہے کہ حضرت فاطمہ (س) سے پيغمبر اکرم (ص) نے دريافت کيا کہ کيا تم جانتي ہو کہ تمہارا نام فاطمہ کيوں رکھا گيا؟
حضرت علي (ع) نے عرض کيا: يا رسول اللہ (ص)! آپ ہي اس کي وجہ تسميہ بيان فرمائيے، پيغمبر (ص) نے ارشاد فرمايا: اس کي وجہ يہ ہے کہ بروز قيامت خداوند عالم فاطمہ (س) اور اس کے شيعيوں کو آتش جہنم سے محفوظ رکھے گا-
(ذخائر العقبي صفحہ 26، ينابيع المودة صفحہ 194، الصواعق الحرقہ صفحہ 245)
پيغمبر اسلام (ص) جناب فاطمہ کي شان ميں فرمايا:
"قيامت کے دن ميري بيٹي فاطمہ ايسے بہشتي ناقہ پر سوار ہوکر ميدان محشر ميں وارد ہوگي جس کي مہار مرواريد کي، چار پائے زمرد سبز کے، آنکھيں ياقوت سرخ کي اور اس پر ايک قبہ نور ہوگا جس سے ہر شي ديکھي جا سکے گي، اس ناقہ کے سر پر ايک تاج ہوگا جس کے گرد ياقوت کے ستر پائے ہوں گے وہ اسي طرح ضو افشاني کريں گے جس طرح آسمان پر ستارے اس سواري کے ذہني طرف ستر ہزار ملک، بائيں طرف ستر ہزار ملک اور اس ناقہ کي مہار جبرئيل کے ہاتھ ميں ہوگي اور وہ بہ

فاطمہ (س) کا مہر

حضرت فاطمہ زہراء، اسوہ کامل
حضرت فاطمہ (س) انتہائي صاحب عصمت و طہارت تھيں
حضرت علي (ع) خدمت رسول (ص) ميں حاضر ہوئے مگر کچھ کہنے نہ پائے- دوسري مرتبہ پھر اسي ارادہ کے تحت خدمت پيغمبر (ص) ميں حاضر ہوئے مگر کچھ کہنے نہ پائے، تيسري مرتبہ جب پيغمبر (ص) کي خدمت ميں پہنچے تو ختمي المرتبت (ص) نے خود دريافت کيا-
اے علي (ع) کيا کوئي حاجت ہے؟
علي (ع) نے فرمايا: جي ہاں!
مگر اظہار نہيں کر سکے- تب خود سرور کائنات (ص) نے فرمايا: "کيا فاطمہ (س) سے عقد کي خواہش رکھتے ہو؟"
حضرت (ص) نے سر جکھا کر ہاں کہہ ديا-
حضرت رسالت مآب (ص) جناب فاطمہ (س) کے حجرے ميں تشريف لے گئے اور فرمايا: "بيٹي علي (ع) تم سے نکاح کے خواہش مند ہيں- تمہاري کيا رائے ہے؟"

فاطمہ (س) اپنے والد کي وفات کے بعد زيادہ دن زندہ نہ رہيں

بہت سے قرائن موجود ہيں، جن سے يہ ثابت ہوتا ہے کہ اسلام کي يہ مثالي خاتون اپنے والد کي وفات کے بعد زيادہ دن زندہ نہ رہيں، نہ صرف يہ کہ آپ کو آرام و سکون ہي نصيب نہيں ہوا بلکہ نہايت ہي رنج و محسن کے ساتھ زندگي بسر کي-
آخر کار روحي و جسمي مصائب و آلام نے آپ کي جان لے لي-
خايفہ دوم ايک گروہ کے ساتھ در فاطمہ (س) پر پہنچے اور چلا کر کہا:
جو لوگ گھر کے اندر ہيں باہر نکل آئيں ورنہ ميں گھر کو اس کے مکينوں کے ساتھ جلا دوں گا- بعض لوگوں نے اسے ظلم سے باز رکھنے کے ليے کہا: اس گھر ميں فاطمہ (س) بھي ہيں-

خمس مذھب شيعہ کي نظر ميں

”‌واعلموا انما غنمتم من شئي فان للّہ خمسہ و للرسول و لذي القربيٰ واليتٰميٰ و المساکين و ابن السبيل و ان کنتم آمنتم باللہ و ما انزلنا علي عبدنا يوم الفرقان يوم التقي الجمعان و اللہ علي کل شئي قدير “ (1)
”‌ اور يہ جان لو کہ تمھيں جس چيز سے بھي فائدہ حاصل ھو اس کا پانچواں حصہ اللہ ،رسول ،رسول کے قرابتدار ، ايتام ،مساکين اور مسافران غربت زدہ کے لئے ھے اگر تمھارا ايمان اللہ پر ھے اور اس نصرت پر ھے جو ھم نے اپنے بندے پر حق و باطل کے فيصلہ کے دن جب دو جماعتيں آپس ميں ٹکرا رھي تھيں نازل کي تھي ، اور اللہ ھي ھر شئي پر قادر ھے “ -
آيت کي تفسير سے پھلے مسئلہ ”‌خمس “ ميں شيعہ و سني نظريات کي تھوڑي وضاحت ضروري ھے -
خمس مذھب شيعہ کي نظر ميں

فاطمہ (س) فاطمہ (س) ہيں


اصلاح معاشرہ ميں خواتين کا اہم کردار
امام خميني (رح): حضرت فاطمہ (س) پر خاندان نبوت کو ناز ہے
جناب فاطمہ کے دونوں بيٹے اسلام پر قربان ہوگئے
مگر حضرت فاطمہ (س) خود اتني عظمتوں اور فضيلتوں کي مالکہ ہيں کہ پروردگار عالم ملائکہ کے سامنے ان کي نسبت سے اہل بيت عليہم السلام کا تعارف فرماتا ہے- هم فاطمة و ابوها و بعلها و بنوها. يعني فاطمہ (س) کے باپ رسول (ص)، فاطمہ (س) کے شوہر امام علي (ع)، فاطمہ کے بيٹے امام حسن (ع) اور امام حسين (ع) ہيں- اس عقيدہ و نظريہ کے مطابق ايراني مفکر و دانشور مرحوم ڈاکٹر علي شريعتي کا کہنا ہے کہ حضرت فاطمہ (س) کو صرف کسي عظيم ہستي کي نسبت سے محترم و معززمت جانو بلکہ فاطمہ (س) کي ذات والا صفات سے سمجھو- کيونکہ فاطمہ (س) فاطمہ (س) ہيں- يہ بات بالکل سچ ہے کہ سماج و معاشرہ کي اصلاح و تطہير و تعمير و ترقي کے ليے تعليم يافتہ، نيک اور مہذب خواتين کي بڑي ضرورت ہے- زمانہ جاہليت ميں عرب کے سماج ميں يہ کج فکري، خام خيالي اور گمراہي عام تھي کہ لڑکي باپ کے ليے باعث ننگ و عار سمجھي جاتي تھي- اس ليے لڑکي کو پيدا ہوتے ہي زندہ در گور کرديا کرتے تھے- مگر فاطمہ زہرا (س) کي آمد شريف سے عربوں کي سوچ ميں ايسي بڑي نمايان تبديلي آئي کہ قيامت تک کے ليے ہر انسان يہ ماننے پر مجبور ہوگيا کہ واقعا اگر ايک لڑکي نيک، تعليم يافتہ، اور حسن اخلاق و عمل سے آراستہ ہو تو نہ صرف اپنے والدين،

ظہور کي غير حتمي علامات


ظہور  کي حتمي علامات
غير حتمي علامات کي فہرست بہت طويل ہے اور بعض حضرات نے سيکڑوں سے گزار کر ان علامات کو ہزاروں کي حدوں تک پہنچا ديا ہے اور حقيقت امر يہ ہے کہ ان ميں اکثر باتيں علامات نہيں ہيں، بلکہ دنيا کے ظلم و جور سے بھر جانے کي تفصيلات ہيں اور يہي وجہ ہے کہ ان علامات ميں ہر برائي کا تذکرہ موجود ہے جو دنيا کے ظلم و جور اور فسادات سے مملو ہو جانے کا خاصہ ہے- علامات کے طور پر حسب ذيل امور کا تذکرہ کيا جاتا ہے:
1- مسجد کوفہ کي ديوار کا منہدم ہو جانا-
2- شط ِ فرات سے کوفہ کي گليوں ميں نہر کا جاري ہو جانا-
3- شہر کوفہ کا تباہي کے بعد دوبارہ آباد ہونا-
4- دريائے نجف ميں پاني کا جاري ہو جانا-
5- فرات سے نجف کي طرف نہر کا جاري ہو جانا-
6- ستارہ جدي کے قريب دمدار ستارہ کا ظاہر ہونا-
7- دنيا ميں شديد قسم کے قحط کا پيدا ہونا-
8- اکثر شہروں اور ملکوں ميں زلزلہ اور طاعون کا پيدا ہونا-
9- مسلسل قتل و خون کا ہونا-
10- قرآن مجيد کا زيورات سے آراستہ کرنا، مساجد ميں سونے کا کام ہونا اور ميناروں کا بلند ترين ہونا-
11- مسجد براثا کا تباہ ہو جانا-
12- مشرق زمين ميں ايک ايسي آگ کا ظاہر ہونا جس کا سلسلہ تين روز يا سات روز تک جاري رہے-
13- سارے آسمان پر سرخي کا پھيل جانا-
14- کوفہ ميں ہر طرف سے قتل و غارت کا برپا ہونا-
15- ايک جماعت کا بندر اور سور کي شکل ميں مسخ ہو جانا-
16- خراسان سے سياہ پرچم کا برآمد ہونا-
17- ماہِ جمادي الثاني اور رجب ميں شديد قسم کي بارش کا ہونا-
18- عربوں کا مطلق العنان اور آوارہ ہو جانا-
19- سلاطينِ عجم کا بے آبرو اور بے وقار ہو جانا-

عقيده مہدويت کے لاحق خطرات


عقيده مہدويت کے لاحق خطرات

دنيا کي ہر اہم چيز اپني اہميت کے پيش نظر خطرات کي زد ميں بھي ہے عقيدہ مہدويت کہ جو انساني فردي اور اجتماعي زندگي کے ليے حيات بخش ہے ايک باعظمت مستقبل کي نويد ہے اور لوگوں کو ظلم و ستم کے مدمقابل حوصلہ اور صبر کي قوت ديتا ہے يقينا يہ بھي مختلف اندروني و بيروني خطرات کي زد ميں ہے – ہم يہاں زمانہ غيبت ميں اس عقيدہ کو لاحق ممکنہ خطرات کے بارے ميں گفتگو کريں گے –
بعض لوگ امام کے ظہور اور فرج کي دعا ميں انتظار فرج سے مراد معمولي حد تک امر بالمعروف و نہي عن المنکر مراد ليتے ہيں اس سے بڑھ کر اپنے ليے کوئ ذمہ داري نہيں سمجھتے –
جبکہ بعض ديگر معمولي حد تک بھي امر بالمعروف و نہي عن المنکر کے قائل نہيں ہيں بلکہ انکا نظريہ ہے کہ غيبت کے زمانہ ميں ہم کچھ نہيں کرسکتے اور نہ ہماري کوئی ذمہ داري ہے امام زمانہ جب ظہور کريں گے تو خود سب امور کي اصلاح فرمائيں گے –
ايک گروہ کا نظريہ ہے کہ لوگوں کو انکے حال پر چھوڑ دينا چاہے جو چاہيں کريں جب ظلم و فساد بڑھے گا تو امام ظہور کريں گے-
ايک چوتھا گروہ انتظار کي يہ تفسير کرتا ہے کہ نہ صرف يہ کہ لوگوں کو گناہ کرنے سے نہ روکيں بلکہ خود بھي گناہ کرو تاکہ امام کا ظہور جلد ہو-
انہي لوگوں ميں سے بعض يہ کہتے ہيں کہ زمانہ غيبت ميں ہر حکومت کسي بھي شکل ميں ہو باطل ہے اسلام و شريعت کے خلاف ہے کيونکہ روايات ميں يہ آيا ہے کہ قائم کے ظہور سے پہلے ہر علم اور پرچم باطل ہے-
ايسے نظريات کے نتائج:
1)اپني يا معاشرہ کي موجودہ غلط صورت حال پر قانع ہونا اور بہتر وضيعت کےليے کوشش نہ کرنا –
2) پسماندگي
3) اغيار کي غلامي
4) نا اميد ہونا اور جلد شکست قبول کرنا
5) حکومت اور ملک کا کمزور ہونا

Anmol Moti




اللہ کے نام
اور زیباترین نام اللہ ہی کے لیے ہیں پس تم اسے انہی (اسمائے حسنیٰ) سے پکارو اور جو اللہ کے اسماء میں کج روی کرتے ہیں انہیں چھوڑ دو، وہ عنقریب اپنے کیے کی سزا پائیں گے
سوره الاعراف (7) _ آیت : 180
غافل لوگ
اور بتحقیق ہم نے جن و انس کی ایک کثیر تعداد کو (گویا) جہنم ہی کے لیے پیدا کیا ہے، ان کے پاس دل تو ہیں مگر وہ ان سے سمجھتے نہیں اور ان کی آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں، وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گزرے، یہی لوگ تو (حق سے) غافل ہیں۔
سوره الاعراف (7) _ آیت : 179
بری مثال
بدترین مثال ان لوگوں کی ہے جو ہماری آیات کی تکذیب کرتے ہیں اور خود اپنے نفسوں پر ظلم کرتے ہیں - راہ راست وہ پاتا ہے جسے اللہ ہدایت عطا کرے اور جنہیں اللہ گمراہ کرے وہ خسارے میں ہیں
سوره الاعراف (7) _ آیات : 178-177

Islam ki Mukhalfat aur Tarveej


آج اسلام  کا سورج اپني پوري آب و تاب کے ساتھ چمک رہا ہے اور اسکي روشني سے شکست خوردہ مغرب کي آنکھيں چندھيا رہي ہيں، جس کي وجہ سے يہ اندھيرے کے چمگادڑ اللہ کے پيارے نبي (ص) کي شان ميں گستاخي کے مرتکب ہو رہے ہيں، ليکن ايمان کے متوالوں کي شان بھي بڑھتي جا رہي ہے اور اسلام کي روشني بھي تيزي سے پھيل رہي ہے- يورپ  کے بہت سارے علاقوں ميں مساجد کي تعمير کو روکا جاتا ہے اور مساجد کے مناروں پر پابندي عائد ہے - بعض  يورپي ممالک ميں اسلامي ثقافت کو روکنے کے ليۓ قانون سازي بھي کي جا رہي ہے - غرض يہ کہ اسلام فوبيا کو عام کرنے کے ليۓ  اسلام مخلف قوّتوں نے ہر طرح کے  طريقے اپناۓ ہوۓ ہيں -   ان تمام پہلوۆں کے باوجود بھي يورپ کے وہ  ذي شعور لوگ جن کا نصيب اچھا ہوتا ہے وہ  اسلام کي طرف راغب ہو رہے ہيں - مغربي خواتين ميں اسلام   کي طرف بہت زيادہ رحجان پايا جاتا ہے -  مغرب کي عورتيں اسلام کي جانب کيوں مائل ہو رہي ہيں؟ يہ سوال يقيناً قابل غور ہے- نائن اليون کے تقريباً ڈھائي سال بعد بائيس فروري2004ء کو سنڈے ٹائمز نے ’’اسلامي برطانيہ ممتاز افراد کو متاثر کر رہا ہے‘‘ (Islamic Britain lures top people) کے عنوان سے شائع ہونے والي اپني ايک

The Holographic Universal of your Mind


Whether you choose to believe it or not, whether you can comprehend it or not, there is one absolute scientific reality:
You live and dwell within your imagination and your imagination alone!
Electromagnetic waves, transmitted to your brain via all of your senses, are evaluated by your brain's existing platform of data, creating the multi-dimensional holographic world in which you live. Regardless of who you are, you do not live or exist in the outside world - you live in an imaginary world that exists inside of your mind.
Any particular thing, that you sense or judge, is no more than your perception of an instance of its existence.
Everyone lives and will continue to live, indefinitely, in his or her own created world. Your heaven and your hell are, and will be, as "real" as you consider your imaginary world to be real for you right now.
Everything that exists in your world is there based on the values formed by the database of your brain... All, that makes you happy or gives you sorrow, are due to these values in your personal database.
Now, it's the time for renewal!

The Holographic Universal of your Mind


Whether you choose to believe it or not, whether you can comprehend it or not, there is one absolute scientific reality:
You live and dwell within your imagination and your imagination alone!
Electromagnetic waves, transmitted to your brain via all of your senses, are evaluated by your brain's existing platform of data, creating the multi-dimensional holographic world in which you live. Regardless of who you are, you do not live or exist in the outside world - you live in an imaginary world that exists inside of your mind.
Any particular thing, that you sense or judge, is no more than your perception of an instance of its existence.
Everyone lives and will continue to live, indefinitely, in his or her own created world. Your heaven and your hell are, and will be, as "real" as you consider your imaginary world to be real for you right now.
Everything that exists in your world is there based on the values formed by the database of your brain... All, that makes you happy or gives you sorrow, are due to these values in your personal database.
Now, it's the time for renewal!

The Holographic Universal of your Mind


Whether you choose to believe it or not, whether you can comprehend it or not, there is one absolute scientific reality:
You live and dwell within your imagination and your imagination alone!
Electromagnetic waves, transmitted to your brain via all of your senses, are evaluated by your brain's existing platform of data, creating the multi-dimensional holographic world in which you live. Regardless of who you are, you do not live or exist in the outside world - you live in an imaginary world that exists inside of your mind.
Any particular thing, that you sense or judge, is no more than your perception of an instance of its existence.
Everyone lives and will continue to live, indefinitely, in his or her own created world. Your heaven and your hell are, and will be, as "real" as you consider your imaginary world to be real for you right now.
Everything that exists in your world is there based on the values formed by the database of your brain... All, that makes you happy or gives you sorrow, are due to these values in your personal database.
Now, it's the time for renewal!